Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: انٹرويوز
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: دنيا ميں اختلافات کو ختم کرنے کے لئے مختلف مذاہب کے دانشوروں کو ايک ثقافتي کام کرنا ہوگا.
ڈسکوری چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دنيا ميں اختلافات کو ختم کرنے کے لئے مختلف مذاہب کے دانشوروں کو ايک ثقافتي کام کرنا ہوگا.
قرآن اور سنت کو غلط سمجھنے سے اور يہ کہ کچھ لوگ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہيں اور دوسروں کو دشمن، يہ سب مسلمانوں اور غير ملسمانوں کے درميان اختلاف کي وجہ بني ہے.
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے ڈسکاوري چينل سے گفتگو کرتے ہوئے مذکورہ مطالب کو ارشاد فرماتے ہوئے فرمايا: دنيا ميں اختلافات کو ختم کرنے کے لئے مختلف مذاہب کے دانشوروں کو ثقافتي کام کرنا ہوگا.
آپ نے فرمايا: اگر چاہتے ہيں کہ اختلافات کو روکيں اور دہشتگردي کا سدباب کريں تو تمام ديني اور غير ديني علماء اور دانشوروں کو چاہئے کہ سب کو آگاہ کريں کہ سب انسان برابر ہيں اور اعلان کريں کہ مختلف اديان کا آپس ميں کوئي اختلاف نہيں ہے.
آپ نے فرمايا: اختلافات کي ايک اور وجہ اقتدار ميں رہنے والوں حضرات تھے اور اب بھي ہيں. صاحب اقتدار لوگ خود اقتدار ميں رہنے کے لئے شيعہ کو سني اور مسلم کو غير مسلم سے لڑاتے ہيں حالانکہ يہ دشمنياں سب کي سب غلط ہيں. لہذا ضرورت اس بات کي ہے کہ ايک ثقافتي کام کيا جائے اور اعلان کر ديا جائے کہ اسلام اور باقي دوسرے سب الھي اديان تمام انسانوں کو برابر سمجھتے ہيں اور دوسرا يہ کہ اقتدار ميں رہنے والوں کو اختلافات ڈالنے سے روکا جائے.
حضرت آية اللہ العظمي صانعي نے مزيد فرمايا: يہ بھي نہيں بھولنا چاہئے کہ مختلف علاقوں کے علماء بھي اس وقت يہ کام کرنے کو تيار ہوں گے جب انہيں يہ يقين ہو جائے کہ ان کي اقوام پر ظلم و ستم نہ ڈھايا جا رہا ہو اور ان کے اثاثے اور اموال مختلف طاقتوں کے ذريعہ نہ لوٹے جا رہے ہوں.
آپ نے آخر ميں فرمايا: بہر حال ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ اس حقيقت کي ترويج کي جائے کہ اسلام صلح اور آرامش کا دين ہے اور مسالمت آميز زندگي پر يقين رکھتا ہے اور انسانيت کا دارومدار بھي صلح و صفا پر ہے اور اسلام کے نظريے کے مطابق مقتدر لوگوں کو چاہئے کہ ايسا کردار ادا کريں تا کہ اپني اور دوسري اقوام ميں ہر دلعزيز ہو جائيں.
تاريخ: 2006/09/14
ويزيٹس: 11576





تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org