Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: وضو

وضو مسئلہ ٥٩. وضو میں واجب ہے کہ چہرے اور ہاتھ کو دھویا جائے اور سر کے اگلے حصہ اور پیر کا مسح کیا جائے.

مسئلہ ٦٠. چہرہ لمبائی میں پیشانی کے اوپری حصہ (جہاں سے بال نکلتے ہیں) سے لے کر ٹھوڑی کے آخری سرے تک اور چوڑائی میں انگوٹھے اور بیچ والی انگلی میں آنے والا حصہ وضو کے وقت دھویا جانا چاہئے اور اگر کوئی دھوتے وقت اس مقدار میں تھوڑی بھی کمی کرے تو اس کا وضو باطل ہے اور اس مقدار کے دھوئے جانے کے یقین کے لئے تھوڑا سا اس کے اطراف کا بھی دھونا چاہئے.

مسئلہ ٦١. دونوں ہاتھوں کو دھونے کے بعد ہاتھ میں آب وضو کی باقی تری سے سر کے اگلے حصہ کا مسح کیا جائے اور ضروری نہیں ہے کہ داہنے ہاتھ سے ہی کیا جائے یا اوپر سے نیچے کی طرف کیا جائے اگرچہ داہنے ہاتھ سے اور اوپر سے نیچے کی طرف مسح کرنے کی احتیاط کی رعایت مطلوب ہے.

مسئلہ ٦٢. سر کے چار حصوں میں ایک حصہ (جو کہ پیشانی کے اوپر ہے) مسح کا مقام ہے اور اس حصہ پر جس جگہ اور جس مقدار میں مسح ہو کافی ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ لمبائی میں ایک انگلی کے برابر اور چوڑائی میں تین ملی ہوئی انگلیوں کے برابر مسح ہو اور سر کے ان بالوں پر جو کہ چوتھائی ہائیں حصہ سے چوتھائی داہنے حصہ پا پھر چوتھائی پیچھے کے حصہ میں آگے ہوں اور اس پر مسح ہو تو کافی نہیں ہے بلکہ مسح باطل ہے اسی طرح اگر سر کے اگلے حصہ کا بال ایک جگہ جمع ہو گیا ہو تو یا سر کے چوتھائی اگلے حصہ کی جلد پر مسح کرے یا ان بالوں پر جو کہ اگر سامنے کی طرف گرائے جائیں تو پیشانی سے آگے نہ جائیں اور سر کے جن بالوں پر رنگ کیا گیا ہے یا تیل اور خوبصورت مواد کا استعمال کیا گیا ہے اگر اس میں ایسے ذرے نہ ہوں کہ جو مسح کے صدق ہونے اور رطوبت کے مسح کی جگہ تک پہنچنے میں مانع نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور ذروں کے ہونے یا نہ ہونے میں سک کی صورت میں ذروں کے ہونے کا حکم ہے چونکہ مانع کا نہ ہونا قطعی ہونا چاہئے اور ذروں کے نہ ہونے کا استصحاب مفید نہیں ہے چونکہ اس بات سے قطع نظر کہ استصحاب عدم جامع ہے مثبت بھی ہے.

مسئلہ ٦٣. سر اور پیر کا مسح کرتے وقت چاہیے کہ ہاتھ، سر اور پیر پر کھینچا جائے اگر کوئی ہاتھ کو ایک جگہ رکھ دے اور سر یا پیر میں تھوڑی سی حرکت ہو تو کوئی حرج نہیں ہے.

سوال ٦٤. وضو میں تیسری مرتبہ دھونا حرام ہے کیا یہ وضو کو باطل کر دیتا ہے؟ اگر کوئی شخص داہنے ہاتھ کو تین مرتبہ ور بائیں ہاتھ کو دو مرتبہ دھوئے تا کہ مسح میں اشکال نہ ہو تو کیا اس کا وضو صحیح ہے؟
جواب: وضو صحیح ہے اور تیسری بار دھونے سے باطل ہونا صرف مسح کی وجہ سے ہے اسلئے کہ وہ پھر وضو کے پانی سے نہ ہو گا کہ جسے سوال میں عدم فرض کیا گیا ہے.

سوال ٦٥. پانی کے مصرف میں کفایت کی غرض سے پانی کو ٹوٹی جبکہ گیلی رہتی ہے بند کر دیتے ہیں تو کیا جو پانی ٹوٹی ہے ہاتھ میں لگتا ہے آیا وضو کے لئے مضر ہے؟ کیا وضو کے پانی کا قصد ہوتا کہ وضو صحیح ہو؟
جواب: اگر ٹوٹی کی تری اس حد تک ہو کہ ہتھیلی تک منتقل ہو جائے اور اسی حصہ سے مسح کرے کہ جس میں وضو کے پانی کے علاوہ دوسری تری بھی لگی ہو تو وہ مسح باطل ہے لیکن اگر رطوبت کم ہو اس طرح کہ ہاتھ میں منتلق نہ ہو تو وضو صحیح ہے، بہرحال مسح صرف وضو کے پانی سے ہونا چاہئے نہ کہ کسی اور پانی سے.
اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org