Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: جنس تبدیل کرنا

جنس تبدیل کرنا سوال ۶٣٢.عورت، مرد اور مخنث افراد جن کی جنس کو آپریشن کے ذریعے تبدیل کرنا ممکن ہے تاکہ انھیں ایک جنس سے ملحق کیا جاسکے اسی طرح وہ مرد وعورت جن میں مردانگی و نسوانیت کے آثار پوری طرح واضح نہیں ہیں لیکن جنس تبدیل کرنے بلفظ دیگر تنقیص جنسیت کے لئے تمائل رکھتے ہیں(چونکہ وہ اپنے اندر جنس مخالف کے بعض آثار منجملہ حرکات وسکنات اور رفتار اپنے اندر ملاحظہ کرتے ہیں) تو کیا جنس کو تبدیل کرنا جائز ہے؟کیا تنقیص جنسیت جائز ہے؟
جواب: ذاتی طور پر جنس کا تبدیل کرنا اس سے پیدا ہونے والے مفاسد سے قطع نظر اسے حرام نہیں کہا جاسکتا بقیہ علمی تکامل کی طرح یہ ایک تکامل ہے اور تبدیلی کے تحقق وحصول کے بعد تمام احکام، آثار، فرائض اورحقوق اس کے بعد والی حالت کے تابع ہیں یعنی تغییر سے پہلے مرد تھا اوربعد میں واقعاً عورت ہو گیا تو اس پر عورت ہونے کے احکام مرتب ہوں گے لیکن آپریشن اور اس کے اجراء سے پہلے مسئلہ کے چہار جوانب (اخلاقی مسائل، انسانی شخصیت، حقوقی چاہے خود اس شخص کے حقوق ہوں یا دوسروں کے حقوق ہوں) پر توجہ رکھنی چاہئے اگرمعمولاً نہ کہیں تو ہمیشہ جنس کا تغییر کرنا حقوقی مسائل اورخارجی مفاسد کی وجہ سے حرام اور مشکلات نیز دیگر پہلووں سے ہرج ومرج کا باعث ہے بہرحال قضیہ کاحکم پرخود مسئلہ کے لحاظ سے بھی اوردیگر پہلووں کے لحاظ سے بھی توجہ دی جانی چاہئے اورجہات وابتدائی دلائل کی بنا پر گرچہ جائز اور مخلوق میں تصرف ہے نہ کہ خلقت میں لیکن اس کے نتائج اور عظیم مفاسد کی بنا پر جائز نہیں کہا جاسکتا لیکن اثباتی تبدیلی اس معنی میں کہ ایک شخص میں مرد کی خصوصیت پائی جاتی ہے لیکن ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق وہ دراصل عور ت ہے یا اس کے برعکس ہے تو یہاں پر کوئی حرج نہیں ہے اور جائز ہے بلکہ حقوق، احکام اور آثار کی حفاظت کے لئے تبدیلی لازم وواجب ہے اس عمل کو در حقیقت تبدیلی نہیں کہا جاسکتا، چونکہ ایک واقعیت کو ثابت کرنا ہے اورایک حقیقی امر ہے ناگفتہ نہ رہ جائے کہ اس طرح کی جنس کی تبدیلی جو مخنث کی حقیقی جنس کے مشخص ہونے پر تمام ہو چونکہ ظاہراً اس کی بنا پر کوئی بیرونی ضرر اور مفسدہ نہیں ہے لہذا اسے حرام نہیں کہا جا سکتا.
اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org