Loading...
error_text
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: عمومي لائيبريري
فونٹ سائز
۱  ۲  ۳ 
دوبارہ اپلوڈ   
دفتر حضرت آية اللہ العظمي صانعي کي ويب سائٹ :: بینکی معاملات

بینکی معاملات مسئلہ ٥٠٩. جو شخص بینکوں سے معاملہ کے عنوان سے کوئی چیز بطور قرض یا غیر قرض لیتا ہے اس صورت میں اگر معاملہ شرعی طریقہ سے انجام پائے تو حلال ہے اور کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ علم ہو کہ بینکوں میں حرام پیسہ ہے اور احتمال دے جو پیسہ اس نے لیا ہے حرام ہے لیکن اگر علم ہو جو پیسہ اس نے لیا ہے خود وہ عین حرام ہے یا اس کا کچھ حصہ حرام ہے تو اس میں تصرف جائز نہیں ہے اور اگر اس کے مالک کو ڈھونڈ نہ سکے تو فقیہ کی اجازت سے اس کے ساتھ مجہول المالک والا معاملہ کرے اور اس مسئلہ میں ملکی، غیر ملکی سرکاری اور غیر سرکاری بینکوں میں کوئی فرق نہیں ہے.

مسئلہ ٥١٠. بینک میں جو پیسہ رکھا جاتا ہے اگر بعنوان قرض ہو اور بینک کے لئے اس میں تصرف کرنا جائزہے اور بینک کے نفع میں ہو(کہ معمولاً ایسا ہی ہوتا ہے) اور بیٍنک ان پیسوں سے دوسروں کو قرض دینے کے لئے کاروبار اور تجارت کرتے ہیں اور اقتصادی نظام چلاتے ہیں اور قرض لینے والا یعنی بینک یا وہ شخص کہ جس نے بینک سے قرض لیا ہے ناداری، فقر وفاقہ سے بچنے کے لئے نہ ہو کہ جو ترحم وصدق و انفاق کا مورد ہے تو اس نفع اور اضافہ کے ساتھ قرض کی حرمت محل تامل ہے بلکہ منع ہے اور انشاءاللہ ربا کی بحث میں اس مسئلہ پر بحث ہو گی.

مسئلہ ٥١١. وہ انعامات جو بینک یا غیر بینک قرض دینے والے کی حوصلہ افزائی کے لئے دیتے ہیں یا دوسری کمپنیاں خریدار اور بیچنے والے کو قرعہ کشی کے ذریعہ دیتی ہیں حلال ہے اور جو چیزیں دکاندار، گاہکوں کو جذب اور زیادہ کرنے کے لئے اپنے سامان کے اندر بنڈلوں میں رکھتے ہیں جیسے گھی کے ڈبے میں سونے کا سکا رکھنا، حلال ہے اور کوئی اشکال نہیں رکھتا.

سوال ٥١٢. مدد کرنے والے اور قرض دینے والے ادارے یا بینک جو پورے ملک میں موجود ہیں کیا انھیں حق حاصل ہے کہ قرض دینے کا خرچ اور تاخیر سے قرض واپس کرنے کا پیسہ دریافت کریں؟
جواب: اگر سارے قرضوں کی بہ نسبت اجرت وہ چاہے کم ہو یا زیادہ ایک طرح کا ہو یاکام کے کم یا زیادہ ہونے(جیسے پرونوٹ اور دیگر کاغذات وغیرہ کی زیادتی) کی وجہ سے کم وزیادہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر قرض کی رقم میں اختلاف کی وجہ سے اجرت میں اختلاف پیدا ہو جائے جیسے دس ہزار روپے قرض کی اجرت ایک لاکھ روپے قرض کی اجرت سے کم ہو تو حرام ہے اور باطل مال کھانے کے مترادف ہے یہ نہ اجرت ہے نہ مزدوری وگرنہ واضح ہے کہ قرض کی رقم میں اختلاف کی وجہ سے اجرت میں اختلاف نہیں ہوتا ہاں تاخیر سے اداکرنے کی صورت میں نقصان اور عقد معاملہ کی عبارت میں شرط قرار دی گئی ہو تو شرط کے حکم کے حکم کے مطابق عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے.

سوال ٥١٣. اگر منافع کی غرض سے کوئی اتنا پیسہ بینک میں فیکس ڈپازٹ کر دے یا سیونگ اکاؤنٹ میں رکھے تو کیا حکم ہے؟
جواب: اگر بینک کے پاس پیسہ جمع کرنے والوں کی طرف سے جو وکالت حاصل ہے اس کے تحت پیسہ سے مضاربہ یا کوئی دوسرا شرعی معاملہ انجام دے تو جو پیسہ بینک سے حاصل ہو وہ انسان کی دیگر در آمدوں کی طرح ہے.

سوال ٥١۴. آج کل کچھ بینک اسلامی معاملہ کے نام پر قرض دیتے ہیں لیکن اس کی شکل سود کی جیسی ہے اس طرح کے قرض کا لینا کیسا ہے؟ کیا مجبوری کے وقت اس طرح کا قرض لیا جاسکتا ہے اس کے پیش نظر کہ بینک خاص شرائط کے ساتھ(مثلاً کوئی مال، جانور یا زراعت کی زمین وغیرہ کے لئے) قرض دیتا ہے اگر کسی شخص میں اس طرح کے شرائط نہیں پائے جاتے تو کیا دکھاوے کے لئے شرائط پیدا کر کے یا کسی وسیلہ سے یا بعض وقت بینک میں کسی کام کرنے والے کو کچھ پیسہ دے کر اس قرض سے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ اور اگر کوئی شخص جس چیز کے لئے قرض دیا گیا ہے اس کے معائدہ کے خلاف کسی دوسری جگہ صرف کرے تو کیا جائز ہے یا یہ کہ قرض لےلے اور دوسرے کے حوالہ کرے تا کہ وہ جس چیز کے لئے قرض دیا گیا ہے اس کے علاوہ کسی دوسری جگہ صرف کرے کیا اس میں اشکال ہے؟
جواب: جمہوری اسلامی ایران کے بینکوں کے معاملہ میں اگر اس کے معاملات کے قوانین پر عمل نہ ہو تو لینے والا پیسہ کا مالک نہ ہو گا اس کی دلیل یہ ہے کہ قوانین کی خلاف ورزی کی بازگشت شرعی عقد کے عمل میں نہ آنے کی طرف ہوتی ہے مثلاً بینک خریداری کی رسید کے ساتھ پیسہ دیتا ہے یعنی در حقیقت بینک مد مقابل سے سامان کو نقد خرید رہا ہے اور پھر پیسہ کے ضرورت مند کو قرض سے مشابہ صورت میں ادھار اور زیادہ قیمت پر بیچتا ہے لذا اگر وہ اصلاً کوئی سامان نہ خریدے اور خریداری کی رسید دکھاوے کے لئے ہو تو وہ اس پیسہ کا کس طرح مالک ہو سکتا ہے جو اسے بینک سے لیا ہے لیکن جو پیسہ قرار داد کے علاوہ اس نے لیا ہے اگر اسے لئے گئے پیسہ کی مقدار کے مطابق قرار داد کے خرچ پر صرف کرے تو بظاہر کوئی حرج نہیں ہے.

سوال ٥١٥. نوٹ خریدنے اور بیچنے کا کیا حکم ہے؟ چک اور پرونوٹ کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر ناچاری اور مجبوری کی وجہ سے ہے سود اور حرام ہے اور کوئی حیلہ اس کے لئے جواز کا باعث نہیں بن سکتا، لیکن اگر کسب معاش، تجارت اور کھتی وغیرہ کے لئے ہو جس کی معشیت میں حرکت پیدا ہو اور قرض دینے والے کو بھی فائدہ ہو اور قرض لینے والے کو بھی ان جگہوں پر اس طرح کے سود سے بچنے کے لئے نوٹ یا چک اور پرونوٹ کی خرید وفروخت احتیاط کے مطابق ہے اگرچہ اس طرح کے اضافہ کے ساتھ قرضوں کی اصل حرمت مورد تامل بلکہ منع ہے.

سوال ٥١۶. کوئی شخص ایک مدت تک بینک میں بچت کرتا ہے بعد میں بطور امتیاز اسے کچھ قرض دیا جاتا ہے کیا وہ اس امتیاز کو قرض کی مقدار سے زیادہ کسی دوسرے کو فروخت کر سکتا ہے؟
جواب: کوئی حرج نہیں ہے یہ حق تحجیر وغیرہ کی طرح ہے کہ جو قابل معاملہ ہے.
اگلا عنوانپچھلا عنوان




تمام حقوق بحق دفتر حضرت آية اللہ العظمي? صانعي محفوظ ہيں.
ماخذ: http://saanei.org